آنکھ اٹھائی نہیں، وہ سامنے سو بار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں، وہ سامنے سو بار ہوئے ہجر میں ایسے فرامش گرِ دیدار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں... نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی تِرے کوچے میں نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی تِرے کوچے میں ہم نہ یاں دوشِ ہوا کے بھی کبھی بار ہوئے ہم نہ یاں دوشِ ہوا کے بھی کبھی بار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں... صبح لے آئینہ اُس بت کو دکھایا ہم نے صبح لے آئینہ اُس بت کو دکھایا ہم نے رات اغیار سے ملنے کے جو انکار ہوئے رات اغیار سے ملنے کے جو انکار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں... مبتذل میں ہی تو ہوں، آپ جو کہیے سچ ہے مبتذل میں ہی تو ہوں، آپ جو کہیے سچ ہے رات جھگڑے تو مجھی پر سرِ بازار ہوئے رات جھگڑے تو مجھی پر سرِ بازار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں، وہ سامنے سو بار ہوئے آنکھ اٹھائی نہیں...