وہ اب میرا نہ لگے، مجھے برا نہ لگے اُٹھاؤں ہاتھ جو دعا میں، مجھے دعا نہ لگے دلِ ناداں، مجھے لے چل کسی ٹھکانے پر، اُسی میں گم رہوں لیکن اُسے پتہ نہ چلے، اُسے پتہ نہ چلے ♪ آنکھیں موندے تیرے پیچھے ہم یوں ہی چلتے رہے پھر بھی تم نہیں تھے اپنے خوف یہ پلتے رہے نہ بھروسہ ہے کسی پر اب زمانے میں نہیں ہے آسماں سر پر اور یہ پاؤں جلے، اُسے پتہ نہ چلے ♪ میں نہ جانوں کب رکے گی ظلم کی یہ انتہا میں نہ مریم کے ہوں جیسی پھر بھی تو سب کچھ سہا ہے فریبی عشق تیرا میرے افسانے میں غموں کا قافلہ سنگ ہے اور یہ لب ہیں سلے اُسے پتہ نہ چلے، او