ایک ہزار جانیں ایسی مجھ پہ سب فدا ان سب کو الوداع اور ایک ہزار باتیں ایسی سب لگتی ہیں صحیح لیکن میں مانوں گا نہیں کیونکہ کچھ ایسے ہیں سوال کہ جن کے ہیں جواب لفظوں میں ممکن ہی نہیں اور کہہ دوں میں اگر سب پاگل اس قدر کوئی مانے گا نہیں بس اب دل کھڑکی کو کھولو ان دروازوں کو کھولو بس اب دل کھڑکی کو کھولو ان دروازوں کو کھولو اور یہ دروازے ہیں ایسے کہ یہ کھل جائیں اگر تو بند یہ ہونگے نہ کبھی اور دریا کچھ ہیں ایسے جو نہ بہنے تھے کبھی جب تک ہم ڈوبے تھے نہیں اور یہ زنجیریں ہیں ایسی یہ نہ کھلنی تھیں کبھی اگر ہم جھکتے ہی نہیں اور منظر یہ ہیں ایسے یہ نہ دکھائی دینے تھے کبھی اندر ہم گھستے اگر نہیں بس اب دل کھڑکی کو کھولو ان دروازوں کو بولو بس اب دل کھڑکی کو کھولو ان دروازوں کو کھولو اور ہاں یہ صحراؤں میں چیخو یہ وادیوں میں سیکھو کہ اب دل کھڑکی کو کھولو اور ہاں یہ صحراؤں میں چیخو یہ تنہائیوں میں سیکھو کہ اب دل کھڑکی کو کھولو اور گو ہم لگتے ہیں حیران اکیلے پریشان لیکن ہم خوش ہیں میری جان اور تیری آنکھیں بھی اداس لمبے بھکرے تیرے بال لیکن یہ سچ ہے میری جان کہ پھول کھلتے ہی نہیں اور ہم ملتے نہ کبھی اگر ہم گمتے ہی نہیں اور ایک ہزار جانیں ایسی مجھ پہ سب فدا ان سب کو مہدی مالوف کا الوداع بس اب دل کھڑکی کو کھولو بس اب دل کھڑکی کو کھولو بس اب دل کھڑکی کو کھولو ان دروازوں کو بولو