ھائے اصغر اصغر کو لے کے گود میں کہتی ہے کربلا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا چھ ماہ کے غریب مسافر کو سونپ کے کہنے لگے حسین یہ قبرِ صغیر سے رکھنا ذرا خیال میرے تشنہ کام کا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا مادر یہ بین کرتی تھی دل میں ہے یہ کسک کبریٰ تمہاری گود سے آغوشِ قبر تک اصغر کو موت نے کہیں رکنے نہیں دیا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا ماں سوچتی تھی ہلتا رہ دن ہو رہی ہے شام جھولے میں لوٹ آئے گا شائد یہ تشنہ کام لیکن غضب ہوا کہ وہ جھولا بھی جل گیا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا گلیوں میں شہرِ کوفہ کی بازارِ شام میں شیریں کے گھر کبھی کبھی دربارِ شام میں مرنے کے بعد بھی علی اصغر سفر میں تھا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا ننھے سے سر کو یاس سے بس تکتے رہتے تھے پھر خون رو کے سیدِ سجاد کہتے تھے میں وہ علی ہوں جس کا بھرا گھر اجڑ گیا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا جانے لگا وطن جو غریبوں کا کارواں مڑ مڑ کے کہتی جاتی تھی اک خالی گود ماں رکھیو سنبھال کر اسے اے ارضِ نینوا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا ڈر ہے یہ پھر سے کوئی سناں پر اٹھا نہ لے لپٹا ہوا ہے اب بھی وہ سینے سے باپ کے رو رو کے کہہ رہی ہے تکلم یہ کربلا یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا