آ گیا بازارِ شام آ گیا بازارِ شام آ گیا بازارِ شام آ گیا بازارِ شام اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا چادر نہیں ہے سر پر ہائے ہائے چادر نہیں ہے سر پر ہے بے حیاء زمانہ اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا راہوں میں چلتے چلتے یوں قافلہ رکا ہے جکڑا ہے بیڑیوں میں سجاد گر گیا ہے آتا ہے شمعر لے کر ہائے ہائے آتا ہے شمعر لے کر ہاتھوں میں تعزیانہ اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا جکڑی ہوئی رسن میں لاچار بیبیاں ہیں سر پر ردا نہیں ہے پر خار وادیاں ہیں اِن وادیوں میں چل کر ہائے ہائے اِن وادیوں میں چل کر ١٥٠٠ میل جانا اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا شبیر کی یتیمہ کھاتی ہے جب طماچے میں رو کے پوچھتی ہوں تجھ کو بچاؤں کیسے عباس کو بلا لے ہائے ہائے عباس کو بلا لے دیتا ہے شمعر طعنہ اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا بالوں سے اپنا چہرہ ہر گام پر چھپاؤں میں ملکۂِ حیاء ہوں گھر بار کیسے جاؤں میں رو رہی ہوں لیکن ہائے ہائے میں رو رہی ہوں لیکن ہنستا ہے یہ زمانہ اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا زینب کا نام لے کر ظالم بلا رہا ہے سجاد ناتواں کو پھر خوں رلا رہا ہے غیرت کے اُس خدا کو ہائے ہائے غیرت کے اُس خدا کو منظر ہے یہ دکھانا اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا کیسے بیاں کریں گے فرحان اور مظہر ہر گام کہہ رہی تھی زینب یہی تو رو کر بازار سے گزر کر ہائے ہائے بازار سے گزر کر زندان تک ہے جانا اماں فضہ عباس کو بلانا اعدا کے پتھروں کا زینب بنی نشانہ اماں فضہ عباس کو بلانا اماں فضہ عباس کو بلانا