ہائے ہائے ہائے ہائے صدا یہ دیتا ہے مقتل میں لاشہِ شبیر حسین ہو گیا مجبور اے میری ہمشیر کفن جو ہوتا میں از سر تمہیں ردا دیتا کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کفن نہیں ہے میسر یہ خاک ہے ناں بہن تو رن کی خاک سے بالوں کو ڈھانپ لینا بہن بنے گی خاک یہ چادر میرے بدن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے اسیر ظلم و جفا ہو گئے ہیں ہم دونوں وطن سے آ کے جدا ہو گئے ہیں ہم دونوں تو اپنے بھائی کو ترسی ہے میں بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے اسیر ہو کے یہاں سے تو شام جائے گی ہماری لاش تو گھوڑوں سے روندی جائے گی سزا یہ سوچی ہے امت نے پنجتن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے ردا بھی سر پہ نہیں ہے جو خود بہن دے دے کوئی تو آ کے میری بھائی کو کفن دے دے یہ بین قرض تھے زینب تیرے دہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے غریب تو بھی ہے زینب تیرا اخی بھی غریب ہے خاک میرا مقدر رسن ہے تیرا نصیب میں اس محن کے لئے تھا تو اس محن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے زمانے بھر سے جو فرحان لوگ جاتے ہیں وہ کربلا سے کفن بھی ضرور لاتے ہیں کلام لکھا ہے مظہر نے اِس سخن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے کہاں سے لائے برادر ردا بہن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے حسین ہو گیا محتاج خود کفن کے لئے