ہائے چالیس برس رونا کوئی آساں تو نہیں ہے وہ خون کے آنسو روتا رہا رونا تو یہی ہے کرب و بلا سے تا بہ مدینہ اُس کو ہر منظر نے رُلایا سجاد رویا اور بہت رویا عابد کو زینب نے جگایا جب ہنگامِ عصر ہوا خیمے کا پردہ جو ہٹایا ضبط کا پھر یارا نہ رہا پہلی بار جو شاہ کے سر کو خولی نے نیزے پہ چڑھایا سجاد رویا اور بہت رویا بے چادر سیدانیوں پہ بازار میں پتھر جب برسے چہرے زخمی ہو جاتے تھے ہاتھ پسِ گردن تھے بندھے دیکھ کے یہ منظر غازی نے سر کو جب نیزے سے گرایا سجاد رویا اور بہت رویا دیکھا جب سجاد نے اک دن پانی لے آیا ہے شقی دل میں سوچا اب تو میری یہ بہنہ پانی پی لے گی اور سکینہ نے وہ پانی جب اُس کی بیڑی پہ گِرایا سجاد رویا اور بہت رویا بولا جب دربار میں ظالم کون ہے ان میں بنتِ علی اس دم ہر سیدانی زینب کے آگے آ جاتی تھی بیبیوں کو جب شمعرِ لعیں نے نام اُن کا لے لے کے بلایا سجاد رویا اور بہت رویا فِضّہ بولی زخموں میں پیوست ہے بچی کا کُرتا اور کفن کے ہوتے ہوئے سجاد کفن بھی دے نہ سکا خون بھرے کُرتے میں جس دم بالی سکینہ کو دفنایا سجاد رویا اور بہت رویا کرب و بلا سے آ کے مدینہ جب بازار وہ جاتا تھا دیکھ کے اس کو ڈالتے تھے قصاب ذبیحوں پر کپڑا دیکھا جب بھی کو ذبیحہ کہہ کے بابا ہائے بابا سجاد رویا اور بہت رویا کرتا ہے منہال روایت اکثر ایسا ہوتا تھا جب آواز آذاں کی آتی میرا مولا روتا تھا اور نماز کے وقت کبھی جو پانی وضو کا سامنے آیا سجاد رویا اور بہت رویا میرے بیٹے کی شادی ہے ُُزہری نے آ کر جو کہا یاد آیا سجاد کو اپنے بھائی اکبر کا لاشہ کرب و بلا کے بعد کسی نے جب اس کو شادی میں بلایا سجاد رویا اور بہت رویا بابا کا بے گور و کفن لاشہ مر کے بھی یاد رہا ہائے رے سجاد کا لاشہ خون کے آنسو روتا تھا یاد آئی بے کفن پدر کی جب کہ کفن باقر نے پنہایا سجاد رویا اور بہت رویا ظلِ رضا میری آنکھوں میں کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں جس لمحے میں میرا مولا خون کے آنسو رویا نہیں نوحہ یہ فرحان علی نے جب بھی کبھی مجلس میں سنایا سجاد رویا اور بہت رویا