حق محبت کا بہت خوب ادا کرتے ہو دوست بن کر میری چاہت سے دغا کرتے ہو میرے دشمن تو تسلی مجھے دیتے ہیں مگر رات دن تم میرے مرنے کی دعا کرتے ہو میری بربادی کا رہتا نہیں انسان تو ہوتا نہیں غم بھی اک روز زمیں اوڑھ کے سو جائیں گے ہم بھی ہاں حلفِ وفا شوق سے اٹھوائیے لیکن ہم لوگ وفا دار ہیں بے قول و قسم بھی میری بربادی کا اب جشن مناؤ یارو راستہ کاٹ کے ہر بار گزر جاتا ہے جیسے پردیس میں تہوار گزر جاتا ہے زندگی عشق میں یوں گزری ہے اپنی دانش جیسے بازار سے نادار گزر جاتا ہے میری بربادی کا اب جشن مناؤ یارو گھر میرا سامنے میرے ہی جلاؤ یارو میری بربادی کا تم کو معلوم ہے آئے گا نہ قاتل میرا دیر کیوں کرتے ہو میت کو اٹھاؤ یارو دیر کیوں کرتے ہو میت کو اٹھاؤ یارو گھر میرا سامنے میرے ہی جلاؤ یارو میری بربادی کا ظلم کی حد سے گزر کر مجھے پتھر مارو ہو سکے تو میری ہستی کو مِٹاؤ یارو ہو سکے تو میری ہستی کو مِٹاؤ یارو گھر میرا سامنے میرے ہی جلاؤ یارو میری بربادی کا دشمنوں نے جو جلائی ہیں لحد پر میری وہ شمعیں آخری سب مل کے بجھاؤ یارو وہ شمعیں آخری سب مل کے بجھاؤ یارو گھر میرا سامنے میرے ہی جلاؤ یارو میری بربادی کا