خود غرضی کی شاخیں جو چلیں دوبارہ تم سب کے ہو کے دیکھو کوئی نہیں تمہارا قبولیت کی گھڑیاں کبھی بھی آجاتی ہیں نہ ہاتھ اٹھائے رکھنا، تم نہ بھول جانا مجبوری کے موقعوں میں بیٹھا ہوں میں اکیلا سر پھیرا میرا، عرصے سے نہیں دیکھا میں سویرا عشکوں کے انبار لگا چکے تھے قدر اُنہیں کو جو رُل رہیں ہیں میں اہم تھا، یہی وہم تھا تھوڑا سا تو، میرے رب، تُو رحم کھا میں اہم تھا، یہی وہم تھا تھوڑا سا تو، میرے رب، تُو رحم کھا سن لے نہ، یہ التجا اے خدا، تُو سن لے نہ سن لے نہ، سن لے نہ اے خدا، میں بدگماں تُو سن لے نہ صبر کے میرے پیمانے جل چکے ہیں سب سارے کیسے یہ تیری خلقت ہے خدا؟ کہ بندش میں سارے سائے ڈھونڈتا رہا تُجھے میں یہ خواب لے کے اپنے سارے نہ ملا کوئی جام تیری رحمتوں کا نفس بے قابو، دل میرا یہ للکارے ہے یہ جال زندگانی کے کب تک سمیٹوں میں؟ اس حال میں نہیں جینا کس در کو پیٹوں میں؟ میں باز آتے تھک چکا، میرے خدا تُو سن لے نہ، سن لے نہ اب برائی کے ڈیرہ گھر-گھر سا لگتا میں سنا کے چھورونگا اپنا طریقہ میں باز آتے تھک چکا، میرے خدا تُو سن لے نہ، سن لے نہ میں اہم تھا، یہی وہم تھا تھوڑا سا تو، میرے رب، تُو رحم کھا میں اہم تھا، یہی وہم تھا تھوڑا سا تو، میرے رب، تُو رحم کھا سن لے نہ، یہ التجا اے خدا، تُو سن لے نہ سن لے نہ، سن لے نہ اے خدا، میں بدگماں تُو سن لے نہ سن لے نہ (یہ جال زندگانی کے کب تک سمیٹوں میں؟) یہ التجا (اس حال میں نہیں جینا، کس در کو پیٹوں میں؟) اے خدا (میں باز آتے تھک چکا، میرے خدا) تُو سن لے نہ (تُو سن لے نہ، سن لے نہ) سن لے نہ (یہ جال زندگانی کے کب تک سمیٹوں میں؟) یہ التجا (اس حال میں نہیں جینا، کس در کو پیٹوں میں؟) اے خدا (میں باز آتے تھک چکا، میرے خدا) تُو سن لے نہ (تُو سن لے نہ، سن لے نہ)