ہائے حسین جبکہ چلے اے بعدِ دوپہر رن کو نہ تھا کوئی کہ جو تھامے رکاب کو سن کو سکینہ تھام رہی تھی عباء کے دامن کو حسین چپکے کھڑے ہیں واہ غربتا! واہ مصیبتا! حسین چپکے کھڑے ہوئے ہیں واہ غربتا! واہ مصیبتا! حسین چپکے کھڑے ہوئے ہیں نظر عَلم پر گڑی ہوئی ہے سکینہ تھامے عباء کا دامن یہ اپنے بابا سے کہہ رہی ہے اے پیارے بابا! قسمت تمہاری میں تشنہ لب ہوں ذرا سا پانی واہ غربتا! واہ مصیبتا! چچا سے اے بابا کہہ دیں سکینہ پیاسی ہے تین دن سے زباں پہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں زباں پہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں یہ مَشک خالی ہے تین دن سے یہ مَشک خالی ہے تین دن سے لو بابا دیکھو یہ مَشک خالی میں تشنہ لب ہوں ذرا سا پانی واہ غربتا! واہ مصیبتا! مجھے ہے احساس میرے بابا کہ ہم سے پیاسے ہو تم زیادہ کروں کی تم سے نہ پھر تقاضا کروں گی تم سے نہ پھر تقاضا ہے بابا بیٹی کا تم سے وعدہ ہے بابا بیٹی کا تم سے وعدہ میں تم پہ صدقے میں تم پہ واری میں تشنہ لب ہوں ذرا سا پانی واہ غربتا! واہ مصیبتا! ذرا سا پانی ذرا سا پانی واہ غربتا! واہ مصیبتا! ذرا سا پانی