اے خدا اے خدا، یہ سنا ہے، تیرے ہر کیے میں بھلا منزلوں کو نہ جائیں جو وہ کشتیاں دے جلا اُس کے آنسو گریں پر دل میرا ہو غم زدہ ہے پتا کہ بچھڑنے سے بڑی نہ کوئی سزا دے جدائی کا غم لے لے کوئی رقم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم دے جدائی کا غم توڑ میرا بھرم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم اے خدا اے خدا چھائی ہے اداسی جو چہرے پہ تیرے مانا کہ زخم بھی تو گہرے تھے تیرے ہیں یادیں سہانی بھی گر سوچے ذرا ہونٹوں پہ ہنسی کے بھی پہرے تھے تیرے دل کے درد یوں تُو آنکھوں سے نہ بہا وقت جو برا ہے وہ ٹل ہی جائے گا دے جدائی کا غم لے لے کوئی رقم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم دے جدائی کا غم توڑ میرا بھرم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم اے خدا میرے لیے تو ہے عشق ذوق اور شاعری شوق ہے تیرے دل میں ماتم ہر سمے، آنکھوں میں روگ ہے نا قابل میں تیری وفا کا، یہ عشقِ صنم جیسے بوجھ ہے وہ کہتی، "میں جانوں، لا حاصل ہے تُو دہرا کے یہ باتیں کیوں دل کو دُکھاتا تُو روز ہے؟" افسوس ہے، تجھے ملے میرے جیسے لوگ ہیں برداشت نہ ہوں تیرے غم، نہ ہو مایوسی مجھے لگے تُو میری روح سی مجھے خوشیوں کے ہر ذرے میں دکھے تُو ہی تیری خوشیوں کے لیے دن ہجر کے بھی کاٹ لوں گا میں یوں ہی بیتے جو میرے پر، میں سہہ لوں گا سدا جن کا نہ کوئی ہو، اُن کا ہوتا خدا دے جدائی کا غم لے لے کوئی رقم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم دے جدائی کا غم توڑ میرا بھرم پر یار کی، اے خدایا ہو آنکھ نہ پھر سے نم ♪ اے خدا