اک ذرا سوچنے دو اس خیاباں میں جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں کون سی شاخ پہ پھول آئے تھے سب سے پہلے کون بے رنگ ہوئی رنج و تعب سے پہلے؟ اور اب سے پہلے کس گھڑی، کون سے موسم میں یہاں خون کا قحط پڑا گل کی شہ رگ پہ کڑا وقت پڑا؟ سوچنے دو ♪ اک ذرا سوچنے دو یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں اس میں کس وقت کہاں آگ لگی تھی پہلے؟ اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں کس جگہ جوت جگی تھی پہلے؟ سوچنے دو ہم سے اس دیس کا تم نام و نشاں پوچھتے ہو جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے اور یاد آئے تو محبوب گزشتہ کی طرح رو بہ رو آنے سے جی گھبرائے ہاں مگر جیسے کوئی ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو آ نکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لیے ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یوں ہی دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے دل کی کیا پوچھتے ہو سوچنے دو