دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہرسو یونہی پہلے کی طرح فرش نومیدیٔ دیدار بچھا ہے اب بھی اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں دل یہ کہتا ہے کہیں اور چلے جائیں جہاں کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بے کار کوئی یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو محرم حسرت دیدار ہو دیوار کوئی نہ کوئی سایۂ گل ہجرت گل سے ویراں ♪ یہ بھی کر دیکھا ہے سو بار کہ جب راہوں میں دیس پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے پردۂ چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارش سنگ اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ہو یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہرسو یونہی پہلے کی طرح فرش نومیدیٔ دیدار بچھا ہے اب بھی