جب سے بے نور ہوئیں ہیں شمعیں خاک میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں، نہ جانے کس جا کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں؟ تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان میری اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا تیرا ارمان، تیری یاد لیے جان میری جانے کس موج میں غلطاں ہے کہاں دل میرا ایک پل ٹھہرو کہ اس پار کسی دنیا سے برق آئے میری جانب، ید بیضا لے کر اور میری آنکھوں کے گم گشتہ گوہر جام ظلمت سے سیہ مست نئی آنکھوں کے شب تاب گوہر لوٹا دے ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے اور نیا دل میرا زہر میں دھل کے، فنا ہو کے کسی گھاٹ لگے پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں