جناب ضیاء محی الدین! سب سے پہلے, "بزمِ آخر" منشی فیض الدین صاحب کی کتاب کا ایک ٹکڑا جس زمانے میں مرزا جہانگیر اکبر شاہ کے چہیتے بیٹے نظر بند ہو کے الہ آباد بھیجے گئے تھے تو نواب ممتاز محل اُن کی والدہ نے یہ منت مانی تھی کہ مرزا جہانگیر چھٹ کر آئیں گے تو حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر پھولوں کا چھپر کھٹ اور غلاف بڑی دھوم دھام سے چڑھاؤں گی جب مرزا جہانگیر چھٹ کر آئے تو اُن کی والدہ نے اپنی منت پوری کی غلاف اور پھولوں کا چھپر کھٹ، اور چھپر کھٹ پہ پھول والوں نے اپنا ایجاد ایک پھولوں کا پنکھا بھی بنا کر لٹکا دیا تھا حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر چڑھایا اور بہت سا کھانا دانا فقیروں کو لُٹایا بادشاہ کی خوشی کے سبب سارے قلعے کے لوگ اور شہر کی خلقت جمع ہو گئی تھی گویا ایک بڑا بھاری میلہ ہو گیا اکبر بادشاہ کو یہ میلہ بہت پسند آیا ہر برس ساون کے مہینے میں مقرر کر دیا دو سو روپے پھول والوں کو پنکھے کی تیاری اور انعام کے جیبِ خاص سے ملتے تھے اُدھر- ہر برس یہ میلہ ہوتا تھا اب بھی ہوتا ہے، جس کا جی چاہے دیکھ لو مہینوں پہلے بادشاہ کے ہاں پنکھے کی تیاریاں ہوتی تھیں رنگ برنگ کے جوڑوں، طرح طرح کے اُن پر مصالحے ٹک رہے ہیں فراش، سپاہی، سب کارخانوں کے لوگ خواجہ صاحب روانہ ہوئے دیوانِِ خاص، بادشاہی محل جھاڑ جھوڑ، فرش فروش، چلمنیں، پردے لگا آراستہ کیا ایک دن پہلے محل کا تانتا روانہ ہوا، خاصگی رتھوں میں تورے داریاں، تصرفی میں سب کارخانے والیاں، نوکریں چاکریں، لونڈیاں باندیاں ساتھ میں ہیں خوجے سپاہی چلے جاتے ہیں خمریاں رتھوں کے ساتھ ساتھ مانگتی جاتی ہیں "اللہ خیریں ہی خیریں رہیں گی! تیرے من کی مرادیں ملیں گی! تجھے حق نے دیا ہے دیا ہے تیرے بٹوے میں پیسہ دھرا ہے تجھے مولیٰ نوازے نوازے!" دوسرے دن صبح کو بادشاہ سوار ہوئے چڑھی بڑھی بیگماتیں اور شاہ زادے نالکی اور عماریوں میں ساتھ ہوئے شہر کے باہر سواری آئی، جلوس ٹھہرگیا، سلامی اتار قلعے کو رخصت ہوا چھڑی سواری، ہوا دار یا سایہ دار طرف یا چھ گھوڑوں کی بگھی میں خواجہ صاحب میں داخل ہوئے دیکھو سنہری بگھی، اوپر نالکی نما بنگلہ، اوپر چھجا، اُن پر سنہری کلسیاں کوچبان لال لال بانات کی کمریاں، پھندنے دار سنہری ٹوپیاں، کلابتونی کام کی پہنے ہوئے، گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہانکتے جاتے ہیں آگے آگے سانڈنی سوار، پیچھے رسالوں کا- سواروں کا رسالہ، آبدار جھنڈا لیے، چوبدار عصا لیے، گھوڑوں پر سوار بگھی کے ساتھ ساتھ اڑائے جاتے ہیں ایلو! بادشاہی محل سے لے کر تالاب اور جھرنا اور امریوں اور ناظر کے باغ تک زنانہ ہو گیا جا بجا سرانچے کھنچ گئے سپاہی اور خوجوں کے پہرے لگ گئے کیا مقدور کہ غیر مرد کے نام کا پشّہ بھی کہیں دکھائی دے محل کی جنگلی ڈیوڑھی سے بادشاہ ہوادار میں اور ملکہ زمانی تام جھام میں اور سب ساتھ ساتھ سواری کے جھرنے پر آئے بادشاہ اور ملکہ زمانی بارہ دری میں بیٹھے، سب ادھر ادھر سیر کرنے لگے کڑاھیاں چڑھ گئیں، پکوان ہونے لگے، امریوں میں جھولے پڑ گئے، سودے والیاں آ بیٹھیں دیکھو کوئی حوض اور نہر کی پٹڑیوں پر مٹک مٹک پھرتی ہے، کوئی کھڑاویں پہنے کھڑ کھڑ کرتی ہے، کوئی جھولے پر بیٹھی گاتی ہے "جھولا کن نے ڈالو رے امریاں برسن لاگیں بوندیں پھنیاں پھنیاں سب سکھی مل گئیں بھول بھلیاں بھولی بھولی ڈولیں شوق رنگ سیّاں جھولا کن نے ڈالو رے امریاں" ایلو! ایک کھڑی ایک کو ہلسا رہی ہے "اے بی زناخی! اے بی دشمن! اے بی جانِ من! اچھی! چلو پھسلنے، پتھر پر سے پھسلیں" وہ کہتی ہیں، "بی ہوش میں آؤ، اپنے حواسوں سے صدقہ دو، اپنی عقل کے ناخن لو! کہیں کسی کا ہاتھ منہ تڑواؤگی" انا، ددا سمجھانے لگیں، "واری! کہیں بیویاں، بادشاہ زادیاں بھی پتھروں پر سے پھسلتی ہیں۔ لونڈیوں باندیوں کو پھسلواؤ، آپ تماشہ دیکھو" "چلو بی میں تمھارے پھلاسڑوں میں نہیں آتی۔ تم یوں ہی پھپڑ دلالے کیا کرتی ہو۔ نہیں نہیں ہم تو آپ ہی پھسلیں گے" "اچھا! نہیں مانتیں، تو دیکھو میں حضور سے جا کر عرض کرتی ہوں" دیکھا! کیا کان دبا کے جھٹ چپکی ہو بیٹھی