نئے سال کی شام- ابھی شام نہیں ہوئی ہے صرف نصف صبح گزر رہی ہے چند گھنٹے اور باقی ہیں اور پھر یہ برس بھی ہمارے گرز آلود دیروز میں مل کر خاک ہو جائے گا شاید اسی وجہ سے اِس دن کے لیے کوئی جذبہ دل میں محسوس نہیں ہوتا نہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جادِ وقت میں یہ دن کوئی اہم سنگِ میل ہے یہ دن ویسا ہی ہے جیسے جیل خانے کے باقی دن ہیں جن سے صرف اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانۂ عمر میں بے رونقی کی مے ایک درجہ اور نیچے اُتر آئی ہے جب سائے ڈھلنے لگیں گے تو شاید یہ تعسرر بدل جائے اور اِس دن کی کچھ اِس طرح شناخت ہو سکے کہ یہ آخری درد کے آخری سال کا آخری دن ہے آخری درد اِس لیے کہ ہر خوشی کی طرح ہر درد بھی اپنی جگہ آخری ہوتا ہے جو گزر جائے تو کبھی پلٹ کر نہیں آتا پھر یہ درد صرف یاد میں واپس آ سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر درد کی یاد سے کچھ محسوس ہو جیسے یہ ضروری نہیں کہ جو بھی خوشی یاد کی جائے اُس سے راحت پہنچے ♪ آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال مدھ بھرا حرف کوئی زہر بھرا حرف کوئی دل نشیں حرف کوئی قہر بھرا حرف کوئی حرف الفت کوئی دل دار نظر ہو جیسے جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت اتنا روشن کہ سر موجۂ زر ہو جیسے صحبت یار میں آغاز طرب کی صورت حرف نفرت کوئی شمشیر غضب ہو جیسے تا ابد شہر ستم جس سے تبہ ہو جائیں اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیہ ہو جائیں آج ہر سر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اس کی آواز جوشش درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح چاک در چاک ہوا آج ہر اک پردۂ ساز آج ہر موج ہوا سے ہے سوالی خلقت لا کوئی نغمہ کوئی صوت تری عمر دراز نوحۂ غم ہی سہی شور شہادت ہی سہی صور محشر ہی سہی بانگ قیامت ہی سہی