عدیل زیدی کی ایک نظم ♪ سب کی سنتے رہو پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو چاہے بولے نہ وہ لب کو کھولے نہ وہ دل الگ بات ہے اپنے لہجہ میں بھی پیار گھولے نہ وہ اپنا جو فرض ہے اس طرح ہو ادا جیسے کہ قرض ہے کوئی جو کچھ کہے اُس کہ سنتے رہو پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو بے خیالی میں ہی لب اگر کھل گئے اور زباں پر کبھی سچ آ گیا یوں سمجھ لوں کہ پھر سلسلے جتنے تھے درمیاں جو بھی تھا خواب دیکھے تھے جو سب بکھر جائیں گے ایسا کرنا نہیں سب کی سننا مگر تم بکھرنا نہیں مسئلے سب کے سب ہیں سفید و سیاہ مسئلوں میں کبھی رنگ بھرنا نہیں دل اگر پیار ہو لب پہ اقرار ہو پیار ہی پیار میں حرف اظہار ہو گر انا یہ کہے دل نہ مل پائیں گے اُس پہ مت جائیو کھوٹی ہے یہ انا اُس سے کچھ نہ بنا دل کی باتیں سنو فاصلے سے صحیح پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو راستہ ایک ہے مدعا ایک ہے اِک ہمارا ہی کیا ساری دنیا کا ہی سلسلہ ایک ہے ایک آئے تھے ہم ایک آئے تھے تم ایک ہے یہ سفر بھیڑ کتنی بھی ہو اپنی اپنی جگہ ہر کوئی ایک ہے نام ہیں گو جدا پر خدا ایک ہے بس، خدا کی طرح سب کی سنتے رہو پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو کہنے سننے سے تو کچھ بدلتا نہیں رات جاتی نہیں دن ٹھہرتا نہیں ہونے والا ہے کیا کچھ بھی کُھلتا نہیں وقت کم ہے بہت اتنے کم وقت میں جس قدر کر سکو پیار کرتے چلو اور کچھ نہ کہو ♪ آپ کی توجہ اور آپ کی محبت کا بے حد شکریہ