جوش صاحب کو بھی لفظوں کی لڑیاں پِرونے میں مہارت حاصل تھی ایک دن جس وقت ہم لوگ جھول جھول کر کجریاں سن رہے تھے اور باورچی خانے کے برساتی پکوانوں کا نمکین دھؤاں نیم کی شاخوں کے نیچے مچل رہا تھا میری کھلائی، ہانپتی، کانپتی، لکڑی ٹیکتی آئیں اور گانے والیوں سے کہا، "بچیو! ذرا ٹھہر جاؤ، آج یہ پُھوس بڑھیا گائے گی۔" وہ سب کی سب پیچھے سرک سرک کر بیٹھ گئیں بڑی دی نے اپنی سر کی چادر پھینک دی اُن کے سفید بال اُڑھنے لگے اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑے دردناک لہجے میں گانا شروع کر دیا- گانا نہیں! یہ نوحہ شروع کر دیا ہائے، تمرے بنا نہ سہائے رے مورے کولکتہ کے جوّیّا اللہ تمہیں لائے اللہ تمہیں لائے" "اللہ تمہیں لائے اللہ تمہیں لائے" بڑی دی کو گاتے اور روتے دیکھا تو میں جھولے سے کود پڑا اور اُن کے سینے سے جا کر لپٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا میرے رونے- روتے ہی تمام گانے والی چھوکریاں بھی منہ پر پلو رکھ رکھ کر رونے لگیں گھر کی تمام خواتین انتہائی سراسیمگی کے ساتھ دوڑنے پڑیں پوچھنے لگیں، "ارے خدا کے واسطے، بتاؤ ہؤا کیا؟" بڑی دی کوئی جواب بھی نہیں دے سکیں تھیں کہ رونے کا شور سُن کر میری انتہائی مغلوب الغضب پھپھی، نواب بیگم بھی دوڑی آئیں اور بے حد غصے کے عالم میں کہنے لگیں، "بھاڑ میں جائے ایسا گیت! ارے بڑی بی، یہ نہیں دیکھتیں, مجلہ کس قدر چہکوں پہکوں رو رہا ہے؟! آگ لگے ایسے گیت کو!" بڑی دی پر جب یہ ڈانٹ پڑی تو اُن کا لتّا پتّا دل، جو پچاسی برس سے مسلسل دھڑک رہا تھا، بُری طرح زخمی ہو گیا اُنہوں نے اپنی بیٹھے ہوئے کوؤں کی سی خون بار آنکھیں اٹھائیں او تھراتی آواز میں کہا "نبّن بی بی، میں سر جھکائے دیتی ہوں چاہے تو مجھے آج نہیں کل مری بڑھیا کو جی بھر کے مار لو اے، میں تو آدھی سے زیادہ قبر میں اُتر چکی ہوں لیکن، نبن بی بی، ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں ذرا انصاف سے کام لو اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر سوچو کے برکھا رت میہہ برسائے اور، ہائے جانِ عالم، پیا کی یاد نہ آئے؟!" ♪ ہائے تمہارے بغیر برکھا اچھی نہیں لگتی، میرے کولکتہ کے جانے والے، اللہ تمہیں لائے" یہ گیت حضرت جانِ عالم واجد علی شاہ- شاہ کی یاد میں کہا گیا تھا اور میرے بچپن میں جب برسات آتی تھی تو اودھ کی گلی گلی میں یہ گیت گا- گایا جاتا اور دھوم سے ماتم کیا جاتا تھا کیا انسانی تاریخ پیش کر سکتی ہے حضرت جانِ عالم کا سا کوئی محبوب بادشاہ جس پر پون صدی تک اِس قدر آنسو بہائے گئے ہوں؟ اے جانِ عالم، فرنگی نے آپ کو تباہ بھی کیا اور بدنام بھی آپ جتنے اچھے تھے اُتنے ہی بُرے بنا دیے گئے اے میرے فرض شناس، جفا کوش، علالت پناہ، فقیر منش اے میرے شرافت سنجھ، ہنر ور، لقطہ رس، علم نواز، ادب پرست شاعر اور اے میرے صبح کے سپاہی اور شہریار اے میرے شام کے موسیقار، فنکار، مالک آپ کے سپہ سالار اور گورنر فقیر محمد خان گویا کا یہ پرپوتا، جوش ملیح آبادی، آپ کے آستانِ عالی پر سر رکھا ہے اور آج اِس بندہ درگاہ کا ناچیز سلام قبول فرمائیے اے فرشتہ خصلت و مظلوم آقا شاہان چیا جب گردینہ واو زن گادورو