اشفق حسین صاحب کی ایک اور نظم "خود سے پہلی ملاقات" مجھے خود سے ملے عرصہ ہؤا ہے اور ابھی کچھ پہلے اِک بستی میں اِک چھوٹے سے گھر میں جس کو گھر کہنا بھی گویا گھر کے زندہ لفظ پر الزام دھرنا ہے مگر وہ گھر ہی تو تھا جس کے دروازے پہ میلے ٹاٹ کے پردے پڑے تھے ہاں، مجھے یاد آگیا، وہ ٹاٹ کا میلا سا پردہ جس میں ایک سوراخ بھی تھا اور اِس سوراخ ہی سے چاند کے ننگے بدن کو رقص کرتے دیکھتا تھا میں وہیں پر؟ ہاں، وہیں پر رات کے پردے- ٹاٹ کے پردے کے پاس اِک ڈھیر بھی تھا پتھروں کا جس پہ اکثر بیٹھ کر میں آسماں کے سارے تارے جگنوؤں کی طرح اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیتا تھا وہ سارے تارے پوری رات مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کرتے تھے وہیں پر تو میں پہلی بار خود سے مل سکا تھا نہیں، شاید نہیں میں تو وہاں بالکل اکیلا تھا سو، اپنے آپ سے ملنا عجب سی بات لگتی ہے مگر میں خود سے پہلی بار اِک دن تو ملا تھا ملا تھا، نا؟ سو، وہ دن اور آج کا دن اِک سوالِ مستقل میرے لیے بن کر کھڑا ہے میری بے ربط، بے ترتیب سوچوں میں ناجانے کیسے ہنگامہ بر- برپا ہے کوئی مجھ سے مسلسل پوچھتا یہ ہے کہ پہلی بار میں خود سے ملا تھا کب، کہاں، کس موڑ پر، کس راستے پر؟ کون سی گلیوں میں آوارہ پھرا تھا میں؟ ملا بھی تھا کہ اپنے آپ سے روٹھا ہؤا تھا میں؟