میراجی کی ایک نظم دن کے روپ میں رات کہانی ♪ رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں جھلملاتے ہوئے کمزور ستارے یہ کہے جاتے ہیں چاند آئے گا تو سائے بھی چلے آئیں گے رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے رات اِک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی رات کے پھیلے اندھیرے ہیں کوئی سایہ نہ تھا رات کا پھیلا اندھیرا محتاج اک بھکاری تھا اسی پہلی کرن کا جو لرزتے ہوئے آتی ہے جگا دیتی ہے سوئے سایوں کو اٹھا دیتی ہے بیداری میں زیست کے ہلتے ہوئے جھومتے آثار نظر آتے ہیں زیست سے پہلے مگر بات کوئی اور ہی تھی رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا چاند کے آنے پہ آئے سائے اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے ♪ ایک سایہ ہے لرزتا سایہ اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ ایک سایہ ہی نظر آتی ہے ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جایا کرتا تھا سایہ خاموش رہا کرتا ہے اور اِک لرزش بیتاب کے ہونے پہ بھی خاموشی ہی راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی سیدھا جاتا ہوا رستہ بھی تو اک سایہ ہے اس پہ آتے ہوئے جاتے ہوئے انسان تمام دھندلے سائے تھے مگر سائے تھے میں بھی جاتا ہوا آتا ہوا اک سایہ تھا میں بھی اک سایہ تھا کس کا سایہ؟ کس کے قدموں سے لپٹتے ہوئے چپ چاپ چلا جاتا تھا؟ کہہ تو دوں دل میں یہ غم ناک خیال آتا ہے سایہ خاموش رہا کرتا ہے رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں بیتی لذت کی کہانی سب سے اور میری ہستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے راستہ آج بھی سایہ ہے مگر اک نیا سایہ ہے راہ میں ایک مکان وہ بھی سایہ ہے اور اُسی کا گھنیرا سنسان راہ میں آتی ہوئی ہر مورت ایک سایہ ہے چڑیل حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں آنکھوں میں خون اتر آتا ہے سامنے دھند سی چھا جاتی ہے دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں سائے ہلتے ہوئے گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں ہنہناتے ہوئے ہنستے ہیں پکار اٹھتے ہیں دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی سایہ خاموش رہا کرتا ہے دیکھ ہم بولتے ہیں بولتے سائے ہیں تمام ہم سے بچ تو کہاں جائے گا؟ اور میں کانپ اٹھا کرتا ہوں اور وہ بولتے ہیں کانپ اٹھا ہے لرزتا ہے یہ بزدل ناکام بات کرتا ہی نہیں ہے کوئی اب بھی شاید یہ سمجھتا ہے لرزتے دل میں سایہ خاموش رہا کرتا ہے